Posts

Intehai Sakoon Me Kamal Me Guzra - انتہائی سکوں میں کمال میں گزرا

 انتہائی سکوں میں کمال میں گزرا ہر وہ لمحہ جو تیرے خیال میں گزرا فکر کر تو سبھی کے عروج کی ورنہ یہ سمجھ کہ ترا وقت زوال میں گزرا پرچۂِ زیست تھا اس قدر گراں مولا وقت سارا سمجھتے سوال میں گزرا خُود سے لے کر خدا کے وصال تک میرا اک زمانہ مسلسل جِدال میں گزرا اے حسَن شاعری میں کمال سے پہلے دل کسی کا کسی کے ملال میں گزرا جنید حسن

Magar Mujhe Muhabbat Thi - مگر مجھے محبت تھی

 مجھے ترے تعلق کی، ہوس نہیں مودت تھی تجھے لگا ضرورت ہے، مگر مجھے محبت تھی فراق دے تو غم کیسا، وصال دے تری مرضی رضا جہاں جہاں تیری، وہیں مری مسرت تھی جہاں ترا نشاں دیکھا، وہیں جما لیے ڈیرے ترے عمل کی ہر نسبت، مرے لیے عقیدت تھی یہ حکم تھا ترا مولا، تو مجھ کو آزمائے گا غموں میں مسکرا دینا، مرے لیے عبادت تھی ابھی تو آگئے ہو تم، مرے لیے میسر ہو کہاں چلے گئے تھے جب، مجھے تری ضرورت تھی کہیں ہوس ہے دنیا کی، کہیں طلب ہے زن و زر کیا ہوا زمانے کو، کیا یہی حقیقت تھی؟ ہے معرکہ بپا ہر سو، سبھی یہاں سپاہی ہیں اٹھا قلم، اذاں دیدے، یہی تری شہادت تھی جواں سمجھ حقیقت کو، نہیں ترا نشیمن یہ بھٹک نہ اور دنیا میں، یہی مری نصیحت تھی جفا کے تیر کھا کر بھی، لبوں پہ مسکراہٹ تھی حسن کسی کی فطرت میں، کمال کی مروت تھی جنید حسن

Dunya Ghumman Gheri Beiba - دنیا گھمن گھیری بیبا

 تیری اے نہ میری بیبا دنیا گھمن گھیری بیبا جتھے ویکھو نفسا نفسی ہر تھاں میری میری بیبا نفس اے تیری مت ای ماری کردا میری میری بیبا کس گل دی اے آکڑ تینوں آخر مٹھی ڈھیری بیبا حق دا چانن لے کے جاویں گور اے گھپ اندھیری بیبا ظالم دا توں ہتھ نہ روکیں دیویں ہلہ شیری بیبا اتوں اتوں حاجی بندے من وچ ہیرا پھیری بیبا دل دی نگری میلی کیتی مسند رب دی جیہڑی بیبا اپنی مرضی چھڈ کے پائی پیراں دے وچ بیڑی بیبا جنت بدلے مومن وکیا اپنی مرضی کیہڑی بیبا نکھڑ جاوے جس دا ماہی اس دی عید اے کیہڑی بیبا مرضی سوہنے رب دی چلدی میری اے نہ تیری بیبا ہن تے آ جا رب دے ولے لا نہ بہتی دیری بیبا

Zindagi Khel Thi Tamasha Thi - زندگی کھیل تھی تماشا تھی

 زندگی کھیل تھی تماشہ تھی اک تری یاد ہی اثاثہ تھی نہ طلب تھی کسی معاوضے کی ہاں محبت تھی بے تحاشہ تھی صبر والے شکایتیں نہیں کرتے تیری قربت مرا دلاسہ تھی جنید حسن

Chahtain Jo Bhi Yar Rakhte Hen - چاہتیں جو بھی یار رکھتے ہیں

چاہتیں جو بھی یار رکھتے ہیں شاہ بطحاء پہ وار رکھتے ہیں حکمِ یزداں نہیں ملا جب تک لعلِ زہرا سوار رکھتے ہیں نسبتِ فقر کا تقاضا ہے سادہ طرز و شعار رکھتے ہیں وقت کے مرحبوں یزیدوں پر حیدری ذوالفقار رکھتے ہیں مال و زر کی ہوس نہ دنیا کی تیری نسبت سے پیار رکھتے ہیں خواہشیں جو بھی ہیں زمانے کی تیرے جوڑوں پہ وار رکھتے ہیں وقف کر دیں گے جو میسر ہے نسبتِ یارِ غار رکھتے ہیں ذکر ہر دم زباں پہ جاری ہو یوں چمن میں بہار رکھتے ہیں اے حسن موت سے محبت ہو زندگی یوں گزار رکھتے ہیں جنید حسن

Din Hamaray Guzar Hi Jain Gay - دن ہمارے گزر ہی جائیں گے

 جاؤ تم عہد کو نبھائیں گے ہم ابھی جان سے نہ جائیں گے چاند سے کہہ دیا ہے مت نکلے آج وہ زلف کو ہٹائیں گے آئیں گے جب وہ بے حجابانہ ہم نظر کس طرح ملائیں گے پھر کبھی نام بھی نہ لے گا دل ہم تجھے اس طرح بھلائیں گے تیری محفل حسِین تر ہو گی ہم مگر بزم میں نہ آئیں گے اے حسَن تشنگی سہی لیکن دن ہمارے گزر ہی جائیں گے جنید حسَن